EN हिंदी
عاشق سا بد نصیب کوئی دوسرا نہ ہو | شیح شیری
aashiq sa bad-nasib koi dusra na ho

غزل

عاشق سا بد نصیب کوئی دوسرا نہ ہو

حفیظ جالندھری

;

عاشق سا بد نصیب کوئی دوسرا نہ ہو
معشوق خود بھی چاہے تو اس کا بھلا نہ ہو

ہے مدعائے عشق ہی دنیائے مدعا
یہ مدعا نہ ہو تو کوئی مدعا نہ ہو

عبرت کا درس ہے مجھے ہر صورت فقیر
ہوتا ہے یہ خیال کوئی بادشاہ نہ ہو

پایان کار موت ہی آئی بروئے کار
ہم کو تو وصل چاہیئے کوئی بہانہ ہو

میرے عزیز مجھ کو نہ چھوڑیں گے قبر تک
اے جان انتظار نہ کر تو روانہ ہو

کعبے کو جا رہا ہوں نگہ سوئے دیر ہے
ہر پھر کے دیکھتا ہوں کوئی دیکھتا نہ ہو

ہاں اے حفیظؔ چھیڑتا جا نغمۂ حیات
جب تک ترا رباب سخن بے صدا نہ ہو