مجاز عین حقیقت ہے با صفا کے لیے
بتوں کو دیکھ رہا ہوں مگر خدا کے لیے
اثر میں ہو گئے کیوں سات آسماں حائل
ابھی تو ہاتھ اٹھے ہی نہیں دعا کے لیے
ہوا بس ایک ہی نالے میں دم فنا اپنا
یہ تازیانہ تھا عمر گریز پا کے لیے
الٰہی ایک غم روزگار کیا کم تھا
کہ عشق بھیج دیا جان مبتلا کے لیے
ہمیں تو داور محشر کو چھوڑتے ہی بنی
خطائے عشق نہ کافی ہوئی سزا کے لیے
اسی کو راہ دکھاتا ہوں جو مٹائے مجھے
میں ہوں تو نور مگر چشم نقش پا کے لیے
یہ جانتا ہوں کہ ہے نصف شب مگر ساقی
ذرا سی چاہیئے اک مرد پارسا کے لیے
الٰہی تیرے کرم سے ملے مے و معشوق
اب التجا ہے برستی ہوئی گھٹا کے لیے
حفیظؔ عازم کعبہ ہوا ہے جانے دو
اب اس پہ رحم کرو اے بتو خدا کے لیے
غزل
مجاز عین حقیقت ہے با صفا کے لیے
حفیظ جالندھری