حیات جاوداں والے نے مارا
زباں دے کر زباں والے نے مارا
بشر کو اس قفس میں تنگ کر کے
زمیں و آسماں والے نے مارا
نگاہیں کام دیتی ہیں نہ راہیں
مکان و لا مکاں والے نے مارا
گوارا ہے دوامی تلخ کامی
کسی میٹھی زباں والے نے مارا
نصیحت گر کو سمجھاؤ خدارا
کہ اس سود و زیاں والے نے مارا
کوئی حد بھی ہے تسلیم و رضا کی
مسلسل امتحاں والے نے مارا
وہ دل میں ہے دل آنکھوں میں نہاں ہے
نشاں دے کر نشاں والے نے مارا
سوئے منزل لیے جاتا ہے ظالم
ہمیں اس کارواں والے نے مارا
ہمیشہ کے لیے خاموش ہو کر
نئی طرز فغاں والے نے مارا
مجھے کم ظرف کہلانا پڑے گا
متاع دو جہاں والے نے مارا
غزل
حیات جاوداں والے نے مارا
حفیظ جالندھری