EN हिंदी
جو عشق چاہتا ہے وہ ہونا نہیں ہے آج | شیح شیری
jo ishq chahta hai wo hona nahin hai aaj

غزل

جو عشق چاہتا ہے وہ ہونا نہیں ہے آج

فرحت احساس

;

جو عشق چاہتا ہے وہ ہونا نہیں ہے آج
خود کو بحال کرنا ہے کھونا نہیں ہے آج

آنکھوں نے دیکھتے ہی اسے غل مچا دیا
طے تو یہی ہوا تھا کہ رونا نہیں ہے آج

یہ رات اہل ہجر کے خوابوں کی رات ہے
قصہ تمام کرنا ہے سونا نہیں ہے آج

جو اپنے گھر میں ہے وہ ہے بازار میں نہیں
ہونا کسی کا شہر میں ہونا نہیں ہے آج

پھر طفل دل ہے دولت دنیا پہ گریہ بار
اور میرے پاس کوئی کھلونا نہیں ہے آج