EN हिंदी
جب اس کو دیکھتے رہنے سے تھکنے لگتا ہوں | شیح شیری
jab usko dekhte rahne se thakne lagta hun

غزل

جب اس کو دیکھتے رہنے سے تھکنے لگتا ہوں

فرحت احساس

;

جب اس کو دیکھتے رہنے سے تھکنے لگتا ہوں
تو اپنے خواب کی پلکیں جھپکنے لگتا ہوں

جسے بھی پیاس بجھانی ہو میرے پاس رہے
کبھی بھی اپنے لبوں سے چھلکنے لگتا ہوں

ہوائے ہجر دکھاتی ہے سبز باغ وصال
تو باغ وہم میں اپنے مہکنے لگتا ہوں

چھڑکنی پڑتی ہے خود پر کسی بدن کی آگ
میں اپنی آگ میں جب بھی دہکنے لگتا ہوں

میں خود کو چکھ نہیں پاتا کہ توڑ لیتی ہے
مجھے ہوائے خزاں جب بھی پکنے لگتا ہوں

بدن کی کان سے ہیرے نکلنے لگتے ہیں
میں اپنی رات میں اکثر چمکنے لگتا ہوں

وہ ایک منظر ناپید ہے کہ جس کے لیے
میں آنکھ ہونے کی خاطر پھڑکنے لگتا ہوں

پرندے بولنے لگتے ہیں مجھ میں رات گئے
تو شاخ شعر پہ میں بھی چہکنے لگتا ہوں

جو کارنامہ کبھی کوئی مجھ سے ہو جائے
تو اپنی پیٹھ میں خود ہی تھپکنے لگتا ہوں

سنانے لگتا ہے اشعار عشق جب احساسؔ
میں اس کے سامنے دل سا دھڑکنے لگتا ہوں