صاحب عشق اب اتنی سی تو راحت مجھے دے
گھر بنا یا در و دیوار سے رخصت مجھے دے
جان یہ سرکشئ جسم ترے بس کی نہیں
میری آغوش میں آ لا یہ مصیبت مجھے دے
تو فراہم نہ ہو مجھ کو یہ ہے مرضی تیری
تجھ کو جب چاہوں بلا لوں یہ اجازت مجھے دے
یہ تری بزم بدن یوں تو نہیں چل سکتی
ایک شب کو ہی سہی اس کی نظامت مجھے دے
آئنے! میں ترا آئینہ در آئینہ ہوں
آج تک کا مرا سرمایۂ حیرت مجھے دے
نہ ملے گا تجھے مجھ سا بھی تہی دست مرید
میرے حصے کی جو ہو دولت بیعت مجھے دے
جانے کب ہوگا مری ذات پہ آپ اپنا نزول
خواب کوئی تو کبھی میری بشارت مجھے دے
میرے بھی ایک اشارے میں ہو معنی کا ہجوم
آنکھ اس کی جو کبھی درس بلاغت مجھے دے
فرحتؔ اللہ کے کھاتے میں نہ ڈال آئینے
فرحتؔ احساس ہوں میں لا مری صورت مجھے دے
غزل
صاحب عشق اب اتنی سی تو راحت مجھے دے
فرحت احساس