صرف اس کے ہونٹ کاغذ پر بنا دیتا ہوں میں
خود بنا لیتی ہے ہونٹوں پر ہنسی اپنی جگہ
انور شعور
تیری آس پہ جیتا تھا میں وہ بھی ختم ہوئی
اب دنیا میں کون ہے میرا کوئی نہیں میرا
انور شعور
تھا وعدہ شام کا مگر آئے وہ رات کو
میں بھی کواڑ کھولنے فوراً نہیں گیا
انور شعور
ٹھہر سکتی ہے کہاں اس رخ تاباں پہ نظر
دیکھ سکتا ہے اسے آدمی بند آنکھوں سے
انور شعور
ترے ہوتے جو جچتی ہی نہیں تھی
وہ صورت آج خاصی لگ رہی ہے
انور شعور
وہ مجھ سے روٹھ نہ جاتی تو اور کیا کرتی
مری خطائیں مری لغزشیں ہی ایسی تھیں
انور شعور
وہ رنگ رنگ کے چھینٹے پڑے کہ اس کے بعد
کبھی نہ پھر نئے کپڑے پہن کے نکلا میں
انور شعور
زمانے کے جھمیلوں سے مجھے کیا
مری جاں! میں تمہارا آدمی ہوں
انور شعور
زندگی کی ضرورتوں کا یہاں
حسرتوں میں شمار ہوتا ہے
انور شعور