آوارہ ہوں رین بسیرا کوئی نہیں میرا
گلی گلی کرتا ہوں پھیرا کوئی نہیں میرا
تیری آس پہ جیتا تھا میں وہ بھی ختم ہوئی
اب دنیا میں کون ہے میرا کوئی نہیں میرا
تیرے بجائے کون تھا میرا پہلے بھی پھر بھی
جب سے ساتھ چھٹا ہے تیرا کوئی نہیں میرا
جب بھی چاند سے چہرے دیکھے بھیگ گئیں پلکیں
پھیل گیا ہر سمت اندھیرا کوئی نہیں میرا
عجب نہیں کوئی لہر اٹھے جو پار لگا دے ناؤ
درد کی دھن میں گائے مچھیرا کوئی نہیں میرا
کوئی مسافر ہی رک جائے پل دو پل کے لیے
مدت سے ویران ہے ڈیرا کوئی نہیں میرا
میں نے قدر تیرگیٔ شب اب پہچانی جب
گزر گئی شب ہوا سویرا کوئی نہیں میرا
کوئی نہیں ہے جس کے ہاتھوں زہر پیوں مر جاؤں
بین بجائے جائے سپیرا کوئی نہیں میرا
غزل
آوارہ ہوں رین بسیرا کوئی نہیں میرا
انور شعور