EN हिंदी
عبور کر نہ سکے ہم حدیں ہی ایسی تھیں | شیح شیری
ubur kar na sake hum haden hi aisi thin

غزل

عبور کر نہ سکے ہم حدیں ہی ایسی تھیں

انور شعور

;

عبور کر نہ سکے ہم حدیں ہی ایسی تھیں
قدم قدم پہ یہاں مشکلیں ہی ایسی تھیں

وہ مجھ سے روٹھ نہ جاتی تو اور کیا کرتی
مری خطائیں مری لغزشیں ہی ایسی تھیں

کہیں دکھائی دئے ایک دوسرے کو ہم
تو منہ بگاڑ لیے رنجشیں ہی ایسی تھیں

بہت ارادہ کیا کوئی کام کرنے کا
مگر عمل نہ ہوا الجھنیں ہی ایسی تھیں

بتوں کے سامنے اپنی زبان کیا کھلتی
خدا معاف کرے خواہشیں ہی ایسی تھیں