عبور کر نہ سکے ہم حدیں ہی ایسی تھیں
قدم قدم پہ یہاں مشکلیں ہی ایسی تھیں
وہ مجھ سے روٹھ نہ جاتی تو اور کیا کرتی
مری خطائیں مری لغزشیں ہی ایسی تھیں
کہیں دکھائی دئے ایک دوسرے کو ہم
تو منہ بگاڑ لیے رنجشیں ہی ایسی تھیں
بہت ارادہ کیا کوئی کام کرنے کا
مگر عمل نہ ہوا الجھنیں ہی ایسی تھیں
بتوں کے سامنے اپنی زبان کیا کھلتی
خدا معاف کرے خواہشیں ہی ایسی تھیں
غزل
عبور کر نہ سکے ہم حدیں ہی ایسی تھیں
انور شعور