ان کی صورت ہمیں آئی تھی پسند آنکھوں سے
اور پھر ہو گئی بالا و بلند آنکھوں سے
کوئی زنجیر نہیں تار نظر سے مضبوط
ہم نے اس چاند پہ ڈالی ہے کمند آنکھوں سے
ٹھہر سکتی ہے کہاں اس رخ تاباں پہ نظر
دیکھ سکتا ہے اسے آدمی بند آنکھوں سے
ہم اٹھاتے ہیں مزہ تلخی و شیرینی کا
مے پیالے سے پلاتا ہے وہ قند آنکھوں سے
بات کرتے ہو تو ہوتا ہے زباں سے صدمہ
دیکھتے ہو تو پہنچتا ہے گزند آنکھوں سے
ہر ملاقات میں ہوتی ہیں ہمارے مابین
چند باتیں لب گفتار سے چند آنکھوں سے
عشق میں حوصلہ مندی بھی ضروری ہے شعورؔ
دیکھیے اس کی طرف حوصلہ مند آنکھوں سے
غزل
ان کی صورت ہمیں آئی تھی پسند آنکھوں سے
انور شعور