اے ضبط دیکھ عشق کی ان کو خبر نہ ہو
دل میں ہزار درد اٹھے آنکھ تر نہ ہو
مدت میں شام وصل ہوئی ہے مجھے نصیب
دو چار سال تک تو الٰہی سحر نہ ہو
اک پھول ہے گلاب کا آج ان کے ہاتھ میں
دھڑکا مجھے یہ ہے کہ کسی کا جگر نہ ہو
ڈھونڈے سے بھی نہ معنی باریک جب ملا
دھوکا ہوا یہ مجھ کو کہ اس کی کمر نہ ہو
الفت کی کیا امید وہ ایسا ہے بے وفا
صحبت ہزار سال رہے کچھ اثر نہ ہو
طول شب وصال ہو مثل شب فراق
نکلے نہ آفتاب الٰہی سحر نہ ہو
غزل
اے ضبط دیکھ عشق کی ان کو خبر نہ ہو
امیر مینائی