EN हिंदी
تیر پر تیر لگاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے | شیح شیری
tir par tir lagao tumhein Dar kis ka hai

غزل

تیر پر تیر لگاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے

امیر مینائی

;

تیر پر تیر لگاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے
سینہ کس کا ہے مری جان جگر کس کا ہے

خوف میزان قیامت نہیں مجھ کو اے دوست
تو اگر ہے مرے پلے میں تو ڈر کس کا ہے

کوئی آتا ہے عدم سے تو کوئی جاتا ہے
سخت دونوں میں خدا جانے سفر کس کا ہے

چھپ رہا ہے قفس تن میں جو ہر طائر دل
آنکھ کھولے ہوئے شاہین نظر کس کا ہے

نام شاعر نہ سہی شعر کا مضمون ہو خوب
پھل سے مطلب ہمیں کیا کام شجر کس کا ہے

صید کرنے سے جو ہے طائر دل کے منکر
اے کماندار ترے تیر میں پر کس کا ہے

میری حیرت کا شب وصل یہ باعث ہے امیرؔ
سر بہ زانو ہوں کہ زانو پہ یہ سر کس کا ہے