EN हिंदी
خواب کے پھولوں کی تعبیریں کہانی ہو گئیں | شیح شیری
KHwab ke phulon ki tabiren kahani ho gain

غزل

خواب کے پھولوں کی تعبیریں کہانی ہو گئیں

احمد مشتاق

;

خواب کے پھولوں کی تعبیریں کہانی ہو گئیں
خون ٹھنڈا پڑ گیا آنکھیں پرانی ہو گئیں

جس کا چہرہ تھا چمکتے موسموں کی آرزو
اس کی تصویریں بھی اوراق خزانی ہو گئیں

دل بھر آیا کاغذ خالی کی صورت دیکھ کر
جن کو لکھنا تھا وہ سب باتیں زبانی ہو گئیں

جو مقدر تھا اسے تو روکنا بس میں نہ تھا
ان کا کیا کرتے جو باتیں ناگہانی ہو گئیں

رہ گیا مشتاقؔ دل میں رنگ یاد رفتگاں
پھول مہنگے ہو گئے قبریں پرانی ہو گئیں