اشک دامن میں بھرے خواب کمر پر رکھا
پھر قدم ہم نے تری راہ گزر پر رکھا
ہم نے ہاتھ سے تھاما شب غم کا آنچل
اور اک ہاتھ کو دامان سحر پر رکھا
چلتے چلتے جو تھکے پاؤں تو ہم بیٹھ گئے
نیند گٹھری پہ دھری خواب شجر پر رکھا
جانے کس دم نکل آئے ترے رخسار کی دھوپ
مدتوں دھیان ترے سایۂ در پر رکھا
جاتے موسم نے پلٹ کر بھی نہ دیکھا مشتاقؔ
رہ گیا ساغر گل سبزۂ تر پر رکھا
غزل
اشک دامن میں بھرے خواب کمر پر رکھا
احمد مشتاق