اجلا ترا برتن ہے اور صاف ترا پانی
اک عمر کا پیاسا ہوں مجھ کو بھی پلا پانی
ہے اک خط نادیدہ دریائے محبت میں
ہوتا ہے جہاں آ کر پانی سے جدا پانی
دونوں ہی تو سچے تھے الزام کسے دیتے
کانوں نے کہا صحرا آنکھوں نے سنا پانی
کیا کیا نہ ملی مٹی کیا کیا نہ دھواں پھیلا
کالا نہ ہوا سبزہ میلا نہ ہوا پانی
جب شام اترتی ہے کیا دل پہ گزرتی ہے
ساحل نے بہت پوچھا خاموش رہا پانی
پھر دیکھ کہ یہ دنیا کیسی نظر آتی ہے
مشتاقؔ مئے غم میں تھوڑا سا ملا پانی
غزل
اجلا ترا برتن ہے اور صاف ترا پانی
احمد مشتاق