بولے کوئی ہنس کر تو چھڑک دیتے ہیں جاں بھی
لیکن کوئی روٹھے تو منایا نہیں جاتا
عبد الحمید عدم
آنکھ کا اعتبار کیا کرتے
جو بھی دیکھا وہ خواب میں دیکھا
عبد الحمید عدم
بڑھ کے طوفان کو آغوش میں لے لے اپنی
ڈوبنے والے ترے ہاتھ سے ساحل تو گیا
عبد الحمید عدم
بعض اوقات کسی اور کے ملنے سے عدمؔ
اپنی ہستی سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے
عبد الحمید عدم
اور تو دل کو نہیں ہے کوئی تکلیف عدمؔ
ہاں ذرا نبض کسی وقت ٹھہر جاتی ہے
عبد الحمید عدم
اے غم زندگی نہ ہو ناراض
مجھ کو عادت ہے مسکرانے کی
عبد الحمید عدم
اے دوست محبت کے صدمے تنہا ہی اٹھانے پڑتے ہیں
رہبر تو فقط اس رستے میں دو گام سہارا دیتے ہیں
عبد الحمید عدم
عدمؔ روز اجل جب قسمتیں تقسیم ہوتی تھیں
مقدر کی جگہ میں ساغر و مینا اٹھا لایا
عبد الحمید عدم
آپ اک زحمت نظر تو کریں
کون بے ہوش ہو نہیں سکتا
عبد الحمید عدم