آج پھر روح میں اک برق سی لہراتی ہے
دل کی گہرائی سے رونے کی صدا آتی ہے
یوں چٹکتی ہیں خرابات میں جیسے کلیاں
تشنگی ساغر لبریز سے ٹکراتی ہے
شعلۂ غم کی لپک اور مرا نازک سا مزاج
مجھ کو فطرت کے رویے پہ ہنسی آتی ہے
موت اک امر مسلم ہے تو پھر اے ساقی
روح کیوں زیست کے آلام سے گھبراتی ہے
سو بھی جا اے دل مجروح بہت رات گئی
اب تو رہ رہ کے ستاروں کو بھی نیند آتی ہے
اور تو دل کو نہیں ہے کوئی تکلیف عدمؔ
ہاں ذرا نبض کسی وقت ٹھہر جاتی ہے
غزل
آج پھر روح میں اک برق سی لہراتی ہے
عبد الحمید عدم