ان کو عہد شباب میں دیکھا
چاندنی کو شراب میں دیکھا
آنکھ کا اعتبار کیا کرتے
جو بھی دیکھا وہ خواب میں دیکھا
داغ سا ماہتاب میں پایا
زخم سا آفتاب میں دیکھا
جام لا کر قریب آنکھوں کے
آپ نے کچھ شراب میں دیکھا
کس نے چھیڑا تھا ساز مستی کو؟
ایک شعلہ رباب میں دیکھا
لوگ کچھ مطمئن بھی تھے پھر بھی
جس کو دیکھا عذاب میں دیکھا
ہجر کی رات سو گئے تھے عدمؔ
صبح محشر کو خواب میں دیکھا
غزل
ان کو عہد شباب میں دیکھا
عبد الحمید عدم