اے غم زندگی نہ ہو ناراض
مجھ کو عادت ہے مسکرانے کی
عبد الحمید عدم
اے دوست محبت کے صدمے تنہا ہی اٹھانے پڑتے ہیں
رہبر تو فقط اس رستے میں دو گام سہارا دیتے ہیں
عبد الحمید عدم
عدمؔ روز اجل جب قسمتیں تقسیم ہوتی تھیں
مقدر کی جگہ میں ساغر و مینا اٹھا لایا
عبد الحمید عدم
آپ اک زحمت نظر تو کریں
کون بے ہوش ہو نہیں سکتا
عبد الحمید عدم
آنکھوں سے پلاتے رہو ساغر میں نہ ڈالو
اب ہم سے کوئی جام اٹھایا نہیں جاتا
عبد الحمید عدم
جس سے چھپنا چاہتا ہوں میں عدمؔ
وہ ستم گر جا بجا موجود ہے
عبد الحمید عدم
کچھ کچھ مری آنکھوں کا تصرف بھی ہے شامل
اتنا تو حسیں تو مرے گلفام نہیں ہے
عبد الحمید عدم
کسی جانب سے کوئی مہ جبیں آنے ہی والا ہے
مجھے یاد آ رہی ہے آج متھرا اور کاشی کی
عبد الحمید عدم
کسی حسیں سے لپٹنا اشد ضروری ہے
ہلال عید تو کوئی ثبوت عید نہیں
عبد الحمید عدم