خدا نے گڑھ تو دیا عالم وجود مگر
سجاوٹوں کی بنا عورتوں کی ذات ہوئی
عبد الحمید عدم
کون انگڑائی لے رہا ہے عدمؔ
دو جہاں لڑکھڑائے جاتے ہیں
عبد الحمید عدم
کشتی چلا رہا ہے مگر کس ادا کے ساتھ
ہم بھی نہ ڈوب جائیں کہیں نا خدا کے ساتھ
عبد الحمید عدم
کہتے ہیں عمر رفتہ کبھی لوٹتی نہیں
جا مے کدے سے میری جوانی اٹھا کے لا
tis said this fleeting life once gone never returns
go to the tavern and bring back my youth again
عبد الحمید عدم
کبھی تو دیر و حرم سے تو آئے گا واپس
میں مے کدے میں ترا انتظار کر لوں گا
عبد الحمید عدم
جنوں اب منزلیں طے کر رہا ہے
خرد رستہ دکھا کر رہ گئی ہے
عبد الحمید عدم
جو اکثر بار ور ہونے سے پہلے ٹوٹ جاتے تھے
وہی خستہ شکستہ عہد و پیماں یاد آتے ہیں
عبد الحمید عدم
آنکھ کا اعتبار کیا کرتے
جو بھی دیکھا وہ خواب میں دیکھا
عبد الحمید عدم
جن سے انساں کو پہنچتی ہے ہمیشہ تکلیف
ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اصل خدا والے ہیں
عبد الحمید عدم