جن کو دولت حقیر لگتی ہے
اف وہ کتنے امیر ہوتے ہیں
عبد الحمید عدم
جی چاہتا ہے آج عدمؔ ان کو چھیڑئیے
ڈر ڈر کے پیار کرنے میں کوئی مزا نہیں
عبد الحمید عدم
جھاڑ کر گرد غم ہستی کو اڑ جاؤں گا میں
بے خبر ایسی بھی اک پرواز آتی ہے مجھے
عبد الحمید عدم
جیب خالی ہے عدمؔ مے قرض پر ملتی نہیں
ایک دو بوتل پہ دیواں بیچنے والا ہوں میں
عبد الحمید عدم
جب ترے نین مسکراتے ہیں
زیست کے رنج بھول جاتے ہیں
عبد الحمید عدم
اک حسیں آنکھ کے اشارے پر
قافلے راہ بھول جاتے ہیں
عبد الحمید عدم
اجازت ہو تو میں تصدیق کر لوں تیری زلفوں سے
سنا ہے زندگی اک خوبصورت دام ہے ساقی
عبد الحمید عدم
حسن اک دل ربا حکومت ہے
عشق اک قدرتی غلامی ہے
عبد الحمید عدم
ہجوم حشر میں کھولوں گا عدل کا دفتر
ابھی تو فیصلے تحریر کر رہا ہوں میں
عبد الحمید عدم