EN हिंदी
عبد الحمید عدم شیاری | شیح شیری

عبد الحمید عدم شیر

90 شیر

دیکھا ہے کس نگاہ سے تو نے ستم ظریف
محسوس ہو رہا ہے میں غرق شراب ہوں

عبد الحمید عدم




دروغ کے امتحاں کدے میں سدا یہی کاروبار ہوگا
جو بڑھ کے تائید حق کرے گا وہی سزاوار دار ہوگا

عبد الحمید عدم




چھپ چھپ کے جو آتا ہے ابھی میری گلی میں
اک روز مرے ساتھ سر عام چلے گا

عبد الحمید عدم




ہر دل فریب چیز نظر کا غبار ہے
آنکھیں حسین ہوں تو خزاں بھی بہار ہے

عبد الحمید عدم




بولے کوئی ہنس کر تو چھڑک دیتے ہیں جاں بھی
لیکن کوئی روٹھے تو منایا نہیں جاتا

عبد الحمید عدم




بارش شراب عرش ہے یہ سوچ کر عدمؔ
بارش کے سب حروف کو الٹا کے پی گیا

عبد الحمید عدم




بڑھ کے طوفان کو آغوش میں لے لے اپنی
ڈوبنے والے ترے ہاتھ سے ساحل تو گیا

عبد الحمید عدم




بعض اوقات کسی اور کے ملنے سے عدمؔ
اپنی ہستی سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے

عبد الحمید عدم




اور تو دل کو نہیں ہے کوئی تکلیف عدمؔ
ہاں ذرا نبض کسی وقت ٹھہر جاتی ہے

عبد الحمید عدم