مشہور اک سوال کیا تھا کریم نے
مجھ سے وہاں بھی آپ کی تعریف ہو گئی
عبد الحمید عدم
مرنے والے تو خیر ہیں بے بس
جینے والے کمال کرتے ہیں
those who are dying can little else contrive
I am truly amazed at those who can survive
عبد الحمید عدم
مے کدہ ہے یہاں سکوں سے بیٹھ
کوئی آفت ادھر نہیں آتی
عبد الحمید عدم
میں یوں تلاش یار میں دیوانہ ہو گیا
کعبے میں پاؤں رکھا تو بت خانہ ہو گیا
عبد الحمید عدم
میں عمر بھر جواب نہیں دے سکا عدمؔ
وہ اک نظر میں اتنے سوالات کر گئے
عبد الحمید عدم
میں مے کدے کی راہ سے ہو کر نکل گیا
ورنہ سفر حیات کا کافی طویل تھا
عبد الحمید عدم
میں بد نصیب ہوں مجھ کو نہ دے خوشی اتنی
کہ میں خوشی کو بھی لے کر خراب کر دوں گا
عبد الحمید عدم
میں اور اس غنچہ دہن کی آرزو
آرزو کی سادگی تھی میں نہ تھا
عبد الحمید عدم
لوگ کہتے ہیں کہ تم سے ہی محبت ہے مجھے
تم جو کہتے ہو کہ وحشت ہے تو وحشت ہوگی
عبد الحمید عدم