منقلب صورت حالات بھی ہو جاتی ہے
دن بھلے ہوں تو کرامات بھی ہو جاتی ہے
حسن کو آتا ہے جب اپنی ضرورت کا خیال
عشق پر لطف کی برسات بھی ہو جاتی ہے
دیر و کعبہ ہی اس کا نہ تعلق سمجھو
زندگی ہے یہ خرابات بھی ہو جاتی ہے
جبر سے طاعت یزداں بھی ہے بار خاطر
پیار سے عادت خدمات بھی ہو جاتی ہے
داور حشر مجھے اپنا مصاحب نہ سمجھ
بعض اوقات کھری بات بھی ہو جاتی ہے
حشر میں لے کے چلو مطرب و معشوق و سبو
غیر کے گھر میں کبھی رات بھی ہو جاتی ہے
بعض اوقات کسی اور کے ملنے سے عدمؔ
اپنی ہستی سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے
غزل
منقلب صورت حالات بھی ہو جاتی ہے
عبد الحمید عدم