EN हिंदी
شکوہ شیاری | شیح شیری

شکوہ

50 شیر

حال دل سن کے وہ آزردہ ہیں شاید ان کو
اس حکایت پہ شکایت کا گماں گزرا ہے

عبد المجید سالک




زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے

احمد فراز




چپ رہو تو پوچھتا ہے خیر ہے
لو خموشی بھی شکایت ہو گئی

اختر انصاری اکبرآبادی




سر محشر یہی پوچھوں گا خدا سے پہلے
تو نے روکا بھی تھا بندے کو خطا سے پہلے

آنند نرائن ملا




اک تیری بے رخی سے زمانہ خفا ہوا
اے سنگ دل تجھے بھی خبر ہے کہ کیا ہوا

عرش صدیقی




ہمیں تو اپنی تباہی کی داد بھی نہ ملی
تری نوازش بیجا کا کیا گلا کرتے

عرشی بھوپالی




کہہ کے یہ اور کچھ کہا نہ گیا
کہ مجھے آپ سے شکایت ہے

آرزو لکھنوی