سر محشر یہی پوچھوں گا خدا سے پہلے
تو نے روکا بھی تھا بندے کو خطا سے پہلے
اشک آنکھوں میں ہیں ہونٹوں پہ بکا سے پہلے
قافلہ غم کا چلا بانگ درا سے پہلے
ہاں یہی دل جو کسی کا ہے اب آئینۂ حسن
ورق سادہ تھا الفت کی جلا سے پہلے
ابتدا ہی سے نہ دے زیست مجھے درس اس کا
اور بھی باب تو ہیں باب رضا سے پہلے
میں گرا خاک پہ لیکن کبھی تم نے سوچا
مجھ پہ کیا بیت گئی لغزش پا سے پہلے
اشک آتے تو تھے لیکن یہ چمک اور تڑپ
ان میں کب تھی غم الفت کی جلا سے پہلے
در مے خانہ سے آتی ہے صدائے ساقی
آج سیراب کئے جائیں گے پیاسے پہلے
راز مے نوشی ملاؔ ہوا افشا ورنہ
سمجھا جاتا تھا ولی لغزش پا سے پہلے
غزل
سر محشر یہی پوچھوں گا خدا سے پہلے
آنند نرائن ملا