نگاہ شوق سے کب تک مقابلہ کرتے
وہ التفات نہ کرتے تو اور کیا کرتے
یہ رسم ترک محبت بھی ہم ادا کرتے
تیرے بغیر مگر زندگی کو کیا کرتے
غرور حسن کو مانوس التجا کرتے
وہ ہم نہیں کہ جو خود داریاں فنا کرتے
کسی کی یاد نے تڑپا دیا پھر آ کے ہمیں
ہوئی تھی دیر نہ کچھ دل سے مشورا کرتے
یہ پوچھو حسن کو الزام دینے والوں سے
جو وہ ستم بھی نہ کرتا تو آپ کیا کرتے
ستم شعار ازل سے ہے حسن کی فطرت
جو میں وفا بھی نہ کرتا تو وہ جفا کرتے
ہمیں تو اپنی تباہی کی داد بھی نہ ملی
تری نوازش بیجا کا کیا گلا کرتے
نگاہ ناز کی معصومیت ارے توبہ
جو ہم فریب نہ کھاتے تو اور کیا کرتے
نگاہ لطف کی تسکیں کا شکریہ لیکن
متاع درد کو کس دل سے ہم جدا کرتے
غزل
نگاہ شوق سے کب تک مقابلہ کرتے
عرشی بھوپالی