آ شتابی سیں وگرنہ مجلس عشاق میں
ظلم ہے غم ہے قیامت ہے خرابی اے صنم
سراج اورنگ آبادی
آئی ہے ترے عشق کی بازی دل و جاں پر
اس وقت نظر کب ہے مجھے سود و زیاں پر
سراج اورنگ آبادی
آنکھ اٹھاتے ہی مرے ہاتھ سیں مجھ کوں لے گئے
خوب استاد ہو تم جان کے لے جانے میں
سراج اورنگ آبادی
عبث ان شہریوں میں وقت اپنا ہم کئے ضائع
کسی مجنوں کی صحبت بیٹھ دیوانے ہوئے ہوتے
سراج اورنگ آبادی
اے عقل نکل جا کہ دھواں آہ کا نہیں ہے
یہ عشق کے لشکر کی سپاہی نظر آئی
سراج اورنگ آبادی
اے نسیم سحری بوئے محبت لے آ
طرۂ یار ستی عطر کی مہکار کوں کھول
سراج اورنگ آبادی
اے نور نظر منتظر وصل ہوں آ جا
دو پاٹ پلک کے نہیں دروازہ ہوا محض
سراج اورنگ آبادی
اے شوخ گلستاں میں نہیں یہ گل رنگیں
آیا دل صد چاک مرا رنگ بدل کر
سراج اورنگ آبادی
بگولا جن کے سر پر چتر شاہی ہے زمیں مسند
وہی اقلیم غم میں آہ کی نوبت بجاتے ہیں
سراج اورنگ آبادی