اگر کچھ ہوش ہم رکھتے تو مستانے ہوئے ہوتے
پہنچتے جا لب ساقی کوں پیمانے ہوئے ہوتے
عبث ان شہریوں میں وقت اپنا ہم کئے ضائع
کسی مجنوں کی صحبت بیٹھ دیوانے ہوئے ہوتے
نہ رکھتا میں یہاں گر الفت لیلیٰ نگاہوں کوں
تو مجنوں کی طرح عالم میں افسانے ہوئے ہوتے
اگر ہم آشنا ہوتے تری بیگانہ خوئی سیں
برائے مصلحت ظاہر میں بیگانے ہوئے ہوتے
زبس کافر ادایوں نے چلائے سنگ بے رحمی
اگر سب جمع کرتا میں تو بت خانے ہوئے ہوتے
نہ کرتا ضبط اگر میں گریۂ بے اختیاری کوں
گزرتا جس طرف یہ پور ویرانے ہوئے ہوتے
نظر چشم خریداری سیں کرتا دلبر ناداں
اگر قطرے مرے آنسو کے دردانے ہوئے ہوتے
محبت کے نشے میں خاص انساں واسطے ورنہ
فرشتے یہ شرابیں پی کہ مستانے ہوئے ہوتے
عوض اپنے گریباں کے کسی کی زلف ہات آتی
ہمارے ہات کے پنجے مگر شانے ہوئے ہوتے
تری شمشیر ابرو سیں ہوئے سنمکھ و الا نہ
اجل کی تیغ سیں جیوں آرا دندانے ہوئے ہوتے
مزہ جو عاشقی میں ہے سو معشوقی میں ہرگز نیں
سراجؔ اب ہو چکے افسوس پروانے ہوئے ہوتے
غزل
اگر کچھ ہوش ہم رکھتے تو مستانے ہوئے ہوتے
سراج اورنگ آبادی