EN हिंदी
میر تقی میر شیاری | شیح شیری

میر تقی میر شیر

120 شیر

آئے ہو گھر سے اٹھ کر میرے مکاں کے اوپر
کی تم نے مہربانی بے خانماں کے اوپر

میر تقی میر




آدم خاکی سے عالم کو جلا ہے ورنہ
آئینہ تھا تو مگر قابل دیدار نہ تھا

میر تقی میر




آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ

میر تقی میر




آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا
اس باد نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا

میر تقی میر




عاشقوں کی خستگی بد حالی کی پروا نہیں
اے سراپا ناز تو نے بے نیازی خوب کی

میر تقی میر




آورگان عشق کا پوچھا جو میں نشاں
مشت غبار لے کے صبا نے اڑا دیا

میر تقی میر




اب دیکھ لے کہ سینہ بھی تازہ ہوا ہے چاک
پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا

میر تقی میر




اب جو اک حسرت جوانی ہے
عمر رفتہ کی یہ نشانی ہے

میر تقی میر




اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے
پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے

میر تقی میر