آشیانوں میں نہ جب لوٹے پرندے تو سدیدؔ
دور تک تکتی رہیں شاخوں میں آنکھیں صبح تک
انور سدید
چلا میں جانب منزل تو یہ ہوا معلوم
یقیں گمان میں گم ہے گماں ہے پوشیدہ
انور سدید
چشمے کی طرح پھوٹا اور آپ ہی بہہ نکلا
رکھتا بھلا میں کب تک آنکھوں میں نہاں پانی
انور سدید
دم وصال تری آنچ اس طرح آئی
کہ جیسے آگ سلگنے لگے گلابوں میں
انور سدید
دکھ کے طاق پہ شام ڈھلے
کس نے دیا جلایا تھا
انور سدید
گھپ اندھیرے میں بھی اس کا جسم تھا چاندی کا شہر
چاند جب نکلا تو وہ سونا نظر آیا مجھے
انور سدید
ہم نے ہر سمت بچھا رکھی ہیں آنکھیں اپنی
جانے کس سمت سے آ جائے سواری تیری
انور سدید
جاگتی آنکھ سے جو خواب تھا دیکھا انورؔ
اس کی تعبیر مجھے دل کے جلانے سے ملی
انور سدید
جو پھول جھڑ گئے تھے جو آنسو بکھر گئے
خاک چمن سے ان کا پتا پوچھتا رہا
انور سدید