ہر سمت سمندر ہے ہر سمت رواں پانی
چھاگل ہے مری خالی سوچو ہے کہاں پانی
بارش نہ اگر کرتی دریا میں رواں پانی
بازار میں بکنے کو آ جاتا گراں پانی
خود رو ہے اگر چشمہ آئے گا مری جانب
میں بھی وہیں بیٹھا ہوں مرتا ہے جہاں پانی
کل شام پرندوں کو اڑتے ہوئے یوں دیکھا
بے آب سمندر میں جیسے ہو رواں پانی
جس کھیت سے دہقاں کو مل جاتی تھی کچھ روزی
اس کھیت پہ دیکھا ہے حاکم ہے رواں پانی
چشمے کی طرح پھوٹا اور آپ ہی بہہ نکلا
رکھتا بھلا میں کب تک آنکھوں میں نہاں پانی
بہہ جاتی ہے ساتھ اس کے شہروں کی غلاظت بھی
جاروب کش عالم لگتا ہے رواں پانی
بس ایک ہی ریلے میں ڈوبے تھے مکاں سارے
انورؔ کا وہیں گھر تھا بہتا تھا جہاں پانی
غزل
ہر سمت سمندر ہے ہر سمت رواں پانی
انور سدید