EN हिंदी
آرزو تھی یہ بکھیریں اپنی کرنیں صبح تک | شیح شیری
aarzu thi ye bikheren apni kirnen subh tak

غزل

آرزو تھی یہ بکھیریں اپنی کرنیں صبح تک

انور سدید

;

آرزو تھی یہ بکھیریں اپنی کرنیں صبح تک
روتے روتے بجھ گئی ہیں ساری شمعیں صبح تک

شب کی مٹھی میں پرندوں کی طرح وہ سو گئیں
ہو گئیں زندہ ہتھیلی پر لکیریں صبح تک

وقت کی گزری عبارت کی تلاوت کے لیے
رات کی تنہائیوں میں آؤ گھومیں صبح تک

دن کا سورج ان پہ لکھے گا انوکھے تبصرے
ہم نے جو تالیف کیں دل پر کتابیں صبح تک

زندگی کے راستوں میں جو کہیں گم ہو گئے
ڈھونڈتی اب ان کو ہیں خوابوں میں آنکھیں صبح تک

آشیانوں میں نہ جب لوٹے پرندے تو سدیدؔ
دور تک تکتی رہیں شاخوں میں آنکھیں صبح تک