آرزو نے جس کی پوروں تک تھا سہلایا مجھے
خاک آخر کر گیا اس چاند کا سایہ مجھے
گھپ اندھیرے میں بھی اس کا جسم تھا چاندی کا شہر
چاند جب نکلا تو وہ سونا نظر آیا مجھے
آنکھ پر تنکوں کی چلمن ہونٹ پر لوہے کا قفل
اے دل بے خانماں کس گھر میں لے آیا مجھے
کس قدر تھا مطمئن میں پیڑ کے سائے تلے
چاندنی مجھ پر چھڑک کر تو نے بہکایا مجھے
میں بساط گل کو ترسا عمر بھر انورؔ سدید
آج پھولوں پر لٹا کر کیوں ہے تڑپایا مجھے
غزل
آرزو نے جس کی پوروں تک تھا سہلایا مجھے
انور سدید