موسم سرد ہواؤں کا
میرے گھر سے نکلا تھا
چپ طاری تھی دنیا پر
ایک فقط میں رویا تھا
وہ جو دل میں طوفاں تھا
قطرہ قطرہ برسا تھا
دکھ کے طاق پہ شام ڈھلے
کس نے دیا جلایا تھا
اب کے موسم برکھا کا
برقعہ پہن کے نکلا تھا
ساٹھویں سال کے آنے پر
پہلی بار میں ہنسا تھا
آگ لگی تھی دریا میں
لیکن ساحل چپ سا تھا
غزل
موسم سرد ہواؤں کا
انور سدید