EN हिंदी
دشمن تو میرے تن سے لہو چوستا رہا | شیح شیری
dushman to mere tan se lahu chusta raha

غزل

دشمن تو میرے تن سے لہو چوستا رہا

انور سدید

;

دشمن تو میرے تن سے لہو چوستا رہا
میں دم بخود کھڑا ہی اسے دیکھتا رہا

جو پھول جھڑ گئے تھے جو آنسو بکھر گئے
خاک چمن سے ان کا پتا پوچھتا رہا

میں پار کر چکا تھا ہزیمت کی منزلیں
ہر چند دشمنوں کے برابر کھڑا رہا

پلکوں پہ جھولتی ہوئی شفاف چلمنیں
کل رات میرا ان سے عجب سلسلہ رہا

اس سنگ دل کے پاس کہاں تھے وفا کے پھول
انورؔ سدید جس کو سدا پوجتا رہا