EN हिंदी
کاسہ لیسوں نے جو تھی نذر اتاری تیری | شیح شیری
kasa-leson ne jo thi nazr utari teri

غزل

کاسہ لیسوں نے جو تھی نذر اتاری تیری

انور سدید

;

کاسہ لیسوں نے جو تھی نذر اتاری تیری
وہی لے ڈوبی تجھے ہشت ہزاری تیری

پوچھا جائے گا دور ہمایونی کا
رو بکار آج ہے سرکار سے جاری تیری

اس کا دیدار ہمہ وقت عبادت میری
آنکھ نے دل پہ جو تصویر اتاری تیری

ہم نے ہر سمت بچھا رکھی ہیں آنکھیں اپنی
جانے کس سمت سے آ جائے سواری تیری

ترک الفت کا ارادہ ہے مصمم اس کا
کام آئی ہی نہیں منت و زاری تیری

ضرب پیہم کا تسلسل نہ ابھی توڑ سدیدؔ
اک نئی ضرب بھی ہو سکتی ہے کاری تیری