تلاش جس کو میں کرتا پھرا خرابوں میں
ملا وہ شخص مجھے رات میرے خوابوں میں
میں اس کو غرفۂ دل میں بھلا چھپاؤں کیا
جو لفظ لفظ ہے بکھرا ہوا کتابوں میں
دم وصال تری آنچ اس طرح آئی
کہ جیسے آگ سلگنے لگے گلابوں میں
وہ آنکھ جس سے غزل میری اکتساب ہوئی
وہ آنکھ جاگتی رہتی ہے میرے خوابوں میں
مہک جو اٹھتی ہے انورؔ سدید اس گل سے
کہاں وہ تازہ مہک کاغذی گلابوں میں
غزل
تلاش جس کو میں کرتا پھرا خرابوں میں
انور سدید