حد نظر سے مرا آسماں ہے پوشیدہ
خیال و خواب میں لپٹا جہاں ہے پوشیدہ
چلا میں جانب منزل تو یہ ہوا معلوم
یقیں گمان میں گم ہے گماں ہے پوشیدہ
پلک پہ آ کے ستارے نے داستاں کہہ دی
جو دل میں آگ ہے اس کا دھواں ہے پوشیدہ
افق سے تا بہ افق ہے سراب پھیلا ہوا
اور اس سراب میں سارا جہاں ہے پوشیدہ
ستارہ کیا مجھے افلاک کی خبر دے گا؟
نظر سے اس کی تو میرا جہاں ہے پوشیدہ
تو خود ہے خوار و زبوں حرص و آز دنیا میں
کھلے گا تجھ پہ کہاں جو جہاں ہے پوشیدہ
میں آنکھ کھول کے تکتا ہوں دور تک انورؔ
کہ ڈھونڈ لوں جو مرا آشیاں ہے پوشیدہ
غزل
حد نظر سے مرا آسماں ہے پوشیدہ
انور سدید