مجھے شاد رکھنا کہ ناشاد رکھنا
مرے دیدہ و دل کو آباد رکھنا
بھلائی نہیں جا سکیں گی یہ باتیں
تمہیں یاد آئیں گے ہم یاد رکھنا
وہ ناشاد و برباد رکھتے ہیں مجھ کو
الٰہی انہیں شاد و آباد رکھنا
تمہیں بھی قسم ہے کہ جو سر جھکا دے
اسی کو تہ تیغ بیداد رکھنا
ملیں گے تمہیں راہ میں بت کدے بھی
ذرا اپنے اللہ کو یاد رکھنا
جہاں بھی نشے میں قدم لڑکھڑائیں
وہیں ایک مسجد کی بنیاد رکھنا
ستاروں پہ چلتے ہوئے ابن آدم
نظر میں فرشتوں کی افتاد رکھنا
حفیظؔ اپنے افکار کی سادگی کو
تکلف کی الجھن سے آزاد رکھنا
غزل
مجھے شاد رکھنا کہ ناشاد رکھنا
حفیظ جالندھری