کچھ لوگ خیالوں سے چلے جائیں تو سوئیں
بیتے ہوئے دن رات نہ یاد آئیں تو سوئیں
چہرے جو کبھی ہم کو دکھائی نہیں دیں گے
آ آ کے تصور میں نہ تڑپائیں تو سوئیں
برسات کی رت کے وہ طرب ریز مناظر
سینے میں نہ اک آگ سی بھڑکائیں تو سوئیں
صبحوں کے مقدر کو جگاتے ہوئے مکھڑے
آنچل جو نگاہوں میں نہ لہرائیں تو سوئیں
محسوس یہ ہوتا ہے ابھی جاگ رہے ہیں
لاہور کے سب یار بھی سو جائیں تو سوئیں
غزل
کچھ لوگ خیالوں سے چلے جائیں تو سوئیں
حبیب جالب