EN हिंदी
کچھ لوگ خیالوں سے چلے جائیں تو سوئیں | شیح شیری
kuchh log KHayalon se chale jaen to soen

غزل

کچھ لوگ خیالوں سے چلے جائیں تو سوئیں

حبیب جالب

;

کچھ لوگ خیالوں سے چلے جائیں تو سوئیں
بیتے ہوئے دن رات نہ یاد آئیں تو سوئیں

چہرے جو کبھی ہم کو دکھائی نہیں دیں گے
آ آ کے تصور میں نہ تڑپائیں تو سوئیں

برسات کی رت کے وہ طرب ریز مناظر
سینے میں نہ اک آگ سی بھڑکائیں تو سوئیں

صبحوں کے مقدر کو جگاتے ہوئے مکھڑے
آنچل جو نگاہوں میں نہ لہرائیں تو سوئیں

محسوس یہ ہوتا ہے ابھی جاگ رہے ہیں
لاہور کے سب یار بھی سو جائیں تو سوئیں