EN हिंदी
امیڈ شیاری | شیح شیری

امیڈ

34 شیر

خواب، امید، تمنائیں، تعلق، رشتے
جان لے لیتے ہیں آخر یہ سہارے سارے

عمران الحق چوہان




اتنے مایوس تو حالات نہیں
لوگ کس واسطے گھبرائے ہیں

جاں نثاراختر




میں اب کسی کی بھی امید توڑ سکتا ہوں
مجھے کسی پہ بھی اب کوئی اعتبار نہیں

جواد شیخ




سایہ ہے کم کھجور کے اونچے درخت کا
امید باندھئے نہ بڑے آدمی کے ساتھ

کیف بھوپالی




پوری ہوتی ہیں تصور میں امیدیں کیا کیا
دل میں سب کچھ ہے مگر پیش نظر کچھ بھی نہیں

لالہ مادھو رام جوہر




کس سے امید کریں کوئی علاج دل کی
چارہ گر بھی تو بہت درد کا مارا نکلا

لطف الرحمن




اتنا بھی ناامید دل کم نظر نہ ہو
ممکن نہیں کہ شام الم کی سحر نہ ہو

disheartened or shortsighted O heart you need not be
this night of sorrow surely will a dawn tomorrow see

نریش کمار شاد