ادھر یہ حال کہ چھونے کا اختیار نہیں
ادھر وہ حسن کہ آنکھوں پہ اعتبار نہیں
میں اب کسی کی بھی امید توڑ سکتا ہوں
مجھے کسی پہ بھی اب کوئی اعتبار نہیں
تم اپنی حالت غربت کا غم مناتے ہو
خدا کا شکر کرو مجھ سے بے دیار نہیں
میں سوچتا ہوں کہ وہ بھی دکھی نہ ہو جائے
یہ داستان کوئی ایسی خوش گوار نہیں
تو کیا یقین دلانے سے مان جاؤ گے؟
یقیں دلاؤں کہ یہ ہجر دل پہ بار نہیں
قدم قدم پہ نئی ٹھوکریں ہیں راہوں میں
دیار عشق میں کوئی بھی کامگار نہیں
یہی سکون مری بے کلی نہ بن جائے
کہ زندگی میں کوئی وجہ انتظار نہیں
خدا کے بارے میں اک دن ضرور سوچیں گے
ابھی تو خود سے تعلق بھی استوار نہیں
گلہ تو مجھ سے وہ کرتا ہے اس طرح جوادؔ
کہ جیسے میں تو جدائی میں سوگوار نہیں
غزل
ادھر یہ حال کہ چھونے کا اختیار نہیں
جواد شیخ