EN हिंदी
امیڈ شیاری | شیح شیری

امیڈ

34 شیر

ناامیدی موت سے کہتی ہے اپنا کام کر
آس کہتی ہے ٹھہر خط کا جواب آنے کو ہے

فانی بدایونی




ترک امید بس کی بات نہیں
ورنہ امید کب بر آئی ہے

فانی بدایونی




نہ کوئی وعدہ نہ کوئی یقیں نہ کوئی امید
مگر ہمیں تو ترا انتظار کرنا تھا

no promise,surety, nor any hope was due
yet I had little choice but to wait for you

فراق گورکھپوری




اسی امید پر تو جی رہے ہیں ہجر کے مارے
کبھی تو رخ سے اٹھے گی نقاب آہستہ آہستہ

ہاشم علی خاں دلازاک




پھر مری آس بڑھا کر مجھے مایوس نہ کر
حاصل غم کو خدا را غم حاصل نہ بنا

حمایت علی شاعرؔ




ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے

افتخار عارف




امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں
ذرا سی دیر کو دنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں

افتخار عارف