EN हिंदी
امیڈ شیاری | شیح شیری

امیڈ

34 شیر

امید وصل نے دھوکے دیئے ہیں اس قدر حسرتؔ
کہ اس کافر کی ہاں بھی اب نہیں معلوم ہوتی ہے

چراغ حسن حسرت




امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا

چراغ حسن حسرت




مجھ کو اوروں سے کچھ نہیں ہے کام
تجھ سے ہر دم امیدواری ہے

فائز دہلوی




دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

فیض احمد فیض




ترے وعدوں پہ کہاں تک مرا دل فریب کھائے
کوئی ایسا کر بہانہ مری آس ٹوٹ جائے

فنا نظامی کانپوری




کچھ کٹی ہمت سوال میں عمر
کچھ امید جواب میں گزری

فانی بدایونی




موجوں کی سیاست سے مایوس نہ ہو فانیؔ
گرداب کی ہر تہہ میں ساحل نظر آتا ہے

فانی بدایونی