کٹیا میں کون آئے گا اس تیرگی کے ساتھ
اب یہ کواڑ بند کرو خامشی کے ساتھ
سایہ ہے کم کھجور کے اونچے درخت کا
امید باندھئے نہ بڑے آدمی کے ساتھ
چلتے ہیں بچ کے شیخ و برہمن کے سائے سے
اپنا یہی عمل ہے برے آدمی کے ساتھ
شائستگان شہر مجھے خواہ کچھ کہیں
سڑکوں کا حسن ہے مری آوارگی کے ساتھ
شاعر حکایتیں نہ سنا وصل و عشق کی
اتنا بڑا مذاق نہ کر شاعری کے ساتھ
لکھتا ہے غم کی بات مسرت کے موڈ میں
مخصوص ہے یہ طرز فقط کیفؔ ہی کے ساتھ
غزل
کٹیا میں کون آئے گا اس تیرگی کے ساتھ
کیف بھوپالی