EN हिंदी
امیڈ شیاری | شیح شیری

امیڈ

34 شیر

بچھڑ کے تجھ سے مجھے ہے امید ملنے کی
سنا ہے روح کو آنا ہے پھر بدن کی طرف

نظم طبا طبائی




یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں
انہیں کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو

ندا فاضلی




بس اب تو دامن دل چھوڑ دو بیکار امیدو
بہت دکھ سہہ لیے میں نے بہت دن جی لیا میں نے

ساحر لدھیانوی




آرزو حسرت اور امید شکایت آنسو
اک ترا ذکر تھا اور بیچ میں کیا کیا نکلا

سرور عالم راز




اب رات کی دیوار کو ڈھانا ہے ضروری
یہ کام مگر مجھ سے اکیلے نہیں ہوگا

شہریار




یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا

Every evening was, by hope, sustained
This evening's desperation makes me weep

شکیل بدایونی