EN हिंदी
شم شیاری | شیح شیری

شم

33 شیر

ہم بہت دور نکل آئے ہیں چلتے چلتے
اب ٹھہر جائیں کہیں شام کے ڈھلتے ڈھلتے

اقبال عظیم




تم پرندوں سے زیادہ تو نہیں ہو آزاد
شام ہونے کو ہے اب گھر کی طرف لوٹ چلو

عرفانؔ صدیقی




اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے

کفیل آزر امروہوی




اب یاد کبھی آئے تو آئینے سے پوچھو
محبوبؔ خزاں شام کو گھر کیوں نہیں جاتے

محبوب خزاں




کون سمجھے ہم پہ کیا گزری ہے نقشؔ
دل لرز اٹھتا ہے ذکر شام سے

مہیش چندر نقش




دوستوں سے ملاقات کی شام ہے
یہ سزا کاٹ کر اپنے گھر جاؤں گا

مظہر امام




اب تو چپ چاپ شام آتی ہے
پہلے چڑیوں کے شور ہوتے تھے

محمد علوی