ہم آپ قیامت سے گزر کیوں نہیں جاتے
جینے کی شکایت ہے تو مر کیوں نہیں جاتے
کتراتے ہیں بل کھاتے ہیں گھبراتے ہیں کیوں لوگ
سردی ہے تو پانی میں اتر کیوں نہیں جاتے
آنکھوں میں نمک ہے تو نظر کیوں نہیں آتا
پلکوں پہ گہر ہیں تو بکھر کیوں نہیں جاتے
اخبار میں روزانہ وہی شور ہے یعنی
اپنے سے یہ حالات سنور کیوں نہیں جاتے
یہ بات ابھی مجھ کو بھی معلوم نہیں ہے
پتھر ادھر آتے ہیں ادھر کیوں نہیں جاتے
تیری ہی طرح اب یہ ترے ہجر کے دن بھی
جاتے نظر آتے ہیں مگر کیوں نہیں جاتے
اب یاد کبھی آئے تو آئینے سے پوچھو
محبوبؔ خزاں شام کو گھر کیوں نہیں جاتے
غزل
ہم آپ قیامت سے گزر کیوں نہیں جاتے
محبوب خزاں