جس کو نسبت ہو تمہارے نام سے
کیوں ڈرے وہ گردش ایام سے
پھر کوئی آواز آئی کان میں
پھر کھنک اٹھے فضا میں جام سے
ان نگاہوں کو نہ جانے کیا ہوا
جن میں رقصاں تھے نئے پیغام سے
پھر کسی کی بزم کا آیا خیال
پھر دھواں اٹھا دل ناکام سے
کون سمجھے ہم پہ کیا گزری ہے نقشؔ
دل لرز اٹھتا ہے ذکر شام سے
غزل
جس کو نسبت ہو تمہارے نام سے
مہیش چندر نقش